vah ajanabi books and stories free download online pdf in Urdu

وہ اجنبی

وہ اجنبی
افسانہ- مرزا حفیظ بیگ.

شام ہونے لگی تھی. ہماری گاڑی ایک اجاڑ سنسان بیابان علاقے سے رواں دواں تھی ہم لوگ سفر کے تھکے ھئے تھے اور اونگھ رہے تھے. شہر قریب تھا اور ہماری کوشش ، وہاں جلد از جلد پہنچنے کی تھی. ٹھیک ایسے وقت کوئی رکاوٹ آ جائے تو...؟
"stop! Stop!! Stop!!!" یکایک اسنے کہا تو ڈرائیور نے گھبرا کر بریک مار دیا. گاڑی ایک جھٹکے سے روک گیی."ہاں،! ہاں! یہیں، اسی جگہ" وہ کہ رہی تھی.
اسنے گاڑی رکوا دی اور اتر کر باہر آ گی. کیا مثبت ہے؟ ہم سب بھی جھنجھلاتے ہویے اسکے پیچھے گاڑی سے کود کر باہر آ گئے اور حیرانی سے اسے دیکھنے لگے. ہمیں یہ بہت ناگوار لگ رہا تھا کہ ختم ے سفر کے درمیان یوں سفر کو روکا جائے .
ہم اسکی ترف سوالیئہ نگاہوں سے دےکھ رہے تھے۔ اسکی نگاہیں جیسے کچھ تلاش رہی تھی. وہ شاید اس جگہ کو پہچاننے کی کوشش کر رہی تھی، کہ وہ بڑبڑانے لگی "یہی، ہاں یہی وہ جگہ ہے." اب اسکے چہرے پر گہری مایوسی نذر آنے لگی.
"کیا ہوا ؟ کیا بات ہے." سب اسسے پوچھنے لگے.
"بات کچھ پرانی ہے...." اسنے جیسے خود سے کہنا شروع کیا، "کلیج کے دنو کی بات ہے ...." اسسے آگے کسسا اسنے یوں سنایا-
"ایک فنکشن اٹینڈ کر کے گھر لوٹ رہی تھی.گھر لوٹنااور دوسرے دن کلیج پہنچنا ضروری تھا.ڈرائیور نہیں تھا اس لئے کار خود ڈرایو کر رہی تھی.خیال تھا کہ جلد سے جلد اس ویران بیابان علاقے کو پار کر جاؤنگی.لیکن حالت پر ہمارا زور تو نہیں چلتا....
موسم بگڑنے لگا،آسمان پر کالے بدل گھر اے حواہیں تیز ہونے لگیں.کار چلانا مشکل ہو رہا تھا.مجبورن رفتار دھیمی کرنی پڑی.دیر ہونے لگی.اندھیرا ہونے لگا .جنگل کا معاملہ اور اکیلی لڑکی .خوف تری ہونے لگا.مننتیں اور وظیفے کرنے لگی کہ جلد سے جلد اس علاقے سے باہر آ جاؤن.ایسے حالت میں سبسے برا جو ہو سکتا تھا .... گاڑی بند ! اب کیا کروں کہاں جاؤں؟ کیسے بلاؤں کہ موبائل کا ٹاور بھی نہیں مل رہا تھا .اب جو کچھ کرنا تھا، مجھے ہی کرنا تھا. لیکن میری لاکھکوششوں کے باوجود کار چالو ہونے کا نام نہ لے تھکن اور بےبسی کے چلتے میری آنکھ مے آنسو آ گئے.ان دنو یہ علاقہ اور بھی زیادہ ویران اور بھی زیادہ جنگلی ہوا کرتا تھا.اب راہ سے گزرتی کسی گاڑی کو روک کر مدد مانگنے کے سوا کوئی چارا نہ رہا. اور گاڑیوں کی تو اس راہ سے جیسے دشمنی ہی تھی. گاہے ب گاہے کوئی اکّا دکّا گاڑی نظر آ جائے تو نصیب کی بات. لیکن ہاتھ دکھانے کے باوجود یہاں کوئی گاڑی روکنے کا نام نہ لیتی. اب یں حالت مے کیا کروں کہاں جاؤں؟ لگتا ہے رات رات کار کے اندر ہی گزارنی پڑیگی. اس سنسان ، ویران جنگل میں رات گزرنے کے خیال سے ہی دل بیٹھا جاتا تھا. کاش،بڑوں کی بات مان جاتی اور اس وقت نکلنے کی زد نہ کرتی. کاش، روک جاتی. کاش، وہاں گئی ہی نہ ہوتی.... کاش....
اور اب ان بہت سارے کاش کا کوئی مطلب ہی نہ تھا. ان بہت سارے کاش سے اب کوئی مدد نہیں ملنے والی ....
بےبسی! آہ بےبسی!! مایوسی! آہ مایوسی!! دل ہے کہ رفتہ رفتہ مایوسی اور نا امیدی کے دلدل مے دھستا جا رہا تھا. کوئی امید بر نہیں آتی ... کوئی صورت نظر نہیں آتی... آخر دل و دماغ نے حالت کے آگے گھٹنے ٹیک دے. اب جو ہونا ہے ہو جائے. ابھی اسی وقت ہو جائے . میں یں حالات میں جینا نہیں چاہتی. ای مصیبتوں ترنت آکر مجھے دبوچ لو .مجھے فنا کر دو. مجھمے اب حالات ے حاظرہ سے لڑنے کی تاب نہیں رہی.
ڈھونڈھ ہے فر مغننئے آتش نفس کو جی،
جسکی سدا ہو جلوہ ے برک ے فنا مجھے.
کیا انہیں حالات پر شیر نے یہ کہا ہوگا. لیکن دل کسی بات سے بہلتا نہیں . بیچینی اور مایوسی ہے کے پیچھا نہیں چھوڑتی. میں انہی حالات سے دو چار تھی کہ شہر کی جانب سے آتی ہویی ایک کار میرے قریب سے گزری. میں اسے قریب سے گزرتے ہویے دکھاتی رہی. مایوسی اس کدر حاوی تھی کہ میں نے اسے روکنے کی کوشش بھی نہیں کی.لیکن بریک لگانے کی تیز آواز نے جیسے مجھے واپس دنیا مے لا پٹکا.مجھ سےکچھ فاصلے پر وہ کار رکی اور ونڈو سے جھانکتے ہے کسی نے پوچھا، "میں آپ کی کوئی مدد کر سکتا ہوںمیڈم؟ نیکی اور پوچھ-پوچھ؟لیکن مجھ سے کچھ کہتے نہ بنا. آواز جیسے ھلک میں اٹک کر رہ گئی.بس انکھو سے آنسو بہنے لگے.
وہ کار سے باہر نکل آیا. اونچے قد کا ایک خوبصورت نوجوان.اسکا معصوم سا چہرہ اسکی بولتی آنکھیں .... بس، وہ دیکھتے ہی بنتا تھا.
"کیا پرابلم ہے؟" اسنے آتے ہی پوچھا اور کار کو آگے پیچھے سے دیکھنے لگا.
"پتا نہیں، میری کار بند پڑ گئی ہے. سٹارٹ ہی نہیں ہو رہی.کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہا .اور یہاں سیل پھون کا نیٹورک بھی نہیں ہے ،کہ کسی کو پھون کرکے ہی بلا لوں."
"کوئی بات نہیں آپ میرے سیل سے کال کر لیں." اسنے اپنا سیل پھون نکال کر میرے حوالے کر دیا. میں نے دیکھا اسمے بھی نیٹورک نہیں تھا.
"کوئی فایدہ نہیں،" سیل پھون واپس کرتے ہویے میں نے کہا، "یہاں نیٹورک نہیں ملنے والا."
"کوئی بات نہیں." اس نے کھا، "ذرا اپنی گاڑی کی چابی دیجئے."
"لگی ہے." میں نے گاڑی کی طرف اشارہ کر کے کہا.
"میں آپ کی کار سٹارٹ کرنے کی کوشش کرتا ہوں، تب تک آپ میری گاڑی میں بیٹھیں."
میں انتظار کرتی رہی لیکن میری کار سٹارٹ ہونے کا نام ہی نہیں لیتی. آخرکار وہ تھکا ہارا سا،پسینہ پوچھتے ہے میرے پاس آکر بولا، "کوئی فایدہ نہیں.... ہاں! آپ چاہیں تو میں میکنک کو بھیج دوں، لیکن آپ اس جگہ اکیلی کیسے رہینگی؟"
اسکی اس بات پر مجھے رونا آ گیا. یہ مجھے یہاں چھوڑ جاےگا؟ تنہا؟ یہ کیسا انسان ہے؟ اسمے انسانیت ہے کہ نہیں؟
"اچچھا ، آپ کے پاس کوئی اسلا وگیرہ ہوگا؟.... نہیں، میرا مطلب ہے ، اپنی حفاظت کے لئے؟"
"........"
"ٹھیک ہے، سمجھ گیا. نہیں ہے. دیکھئے، جب آپ اکیلی نکلتی ہیں تو اپنی حفاظت کا خیال رکھنا چاہیے. اور کسی رہ چلتے اجنبی کا عتبار بھی نہیں کرنا چاہئے. اگر کسی اجنبی سے لیفٹ لینا پڑے تو ناممکیں تو نہمے یں کی وہ آپ کو کوئی نکسن پہنچاہے.
اب مجھے اس پر غصّہ آنے لگا.یہ مجھے ڈرا رہا ہے؟ بجاے دلاسا دینے کے؟یہ آخر کیسا انسان ہے؟بھیس،بیدرد کہینکا.
"خیر، کوئی بات نہیں " کہتے ہویے اس نے اپنی جیب سے ایک پستول نکالی اور میرے ہاتھ میں تھما دی، "اسے اپنے پرس میں رکھیں اور اپنی حفاظت میں بے دھڑک ہو کر استعمال کریں." کہتے ہویے اس نے مجھے میری کار میں بیٹھایا اور یہ کہتے ہوے چلا گیا کہ، "میں جلد ہی کسی میکنک کو بھیجتا ہوں."
اتنی دیر مے وہ اپنی کار میں جا بیٹھا ؛ اور اس سے پہلے کہ میں کچھ سمجھ سکوں ، وہ نگاہوں سے اوجھل ہو گیا. میں بےبس لاچار سی اسے دور جاتے دیکھتی رہ گیی . اب اپنی لاچاری پر میرے آنسو نکل اے. ابھی میرے اشک میری آنکھوں سے باہر آتے ، کہ وہ U turn لے کر فر واپس آ گیا.
"چوں کہ اب آپ کے پاس حفاظتی سامان موجود ہے ، تو اب آپ بے خوف ہو کر کسی سے لفٹ لے سکتی ہیں. اور اگر آپ اجازت دیں تو کیا میں آپکو ، آپ کے گھر تک lift دے سکتا ہوں؟" اس نے کھا ؛ اور جواب کا انتظار کرنے کے بجاے ، اپنی کار کا پچھلا دروازہ کھول دیا.
"فکر نہ کریں . میں ایک شریف آدمی ہوں. فر بھی اگر آپ کومجھسے کوئی خطرہ محسوس ہو تو آپ بے دھڑک اپنی gun کا استمعال کر سکتی ہیں."
مجھے کچھ کہتے نہ بنا. میں تو بس ایک بوط کی طرح یا ٹھیک ٹھیک کہیں تو ایک puppet کی طرح اسکے شاعروں پر چلنے لگی تھی.میں اسکے اشارے پر چپ چاپ اسکی گاڑی میں پچھلی سیٹ پر جا بیٹھی. اس درمیاں وہ میری کار تک گیا. کار سے میرا پرس اور موبائیل اٹھایا ، میری کار کو لاک کیا اور چابی، موبائل،اور پرس میرے حوالے کر دیا.
میں کسی کا احسان لینا پسند نہیں کرتی .میں جانتی ہوں آپ پر احسان کرنے والا آپ پر احسان جتانے یا نصیحتیں دینے کا کوئی موکا نہیں چوڑیگا.جیسے یہ ابھی شروع ہونے والا ہے.میں نے اپنے آپ کو اسکی باتوں سے زخمی ہونے سے بچانے کی تیاری بھی شروع کر دی. لیکن وہ خدا کا بندہ تو منہ مے دہی جما کر بیٹھا رہا.گھر کا پتا اور راستے کے علاوہ اس نے کوئی بات نہ کی.اس کی چپپی میرے لئے اور تشویش کا بایئس تھی. میں کار کی پچھلی سیٹ پر بیٹھی تھی. اسکی گن میرے پرس مے تھی اور میرا ہاتھ گن پر.
میرے گھر کے سامنے گاڑی روک کر اسنے پوچھا، "یہی گھر ہے نہ؟"
میرے ہاں کرنے پر فر پوچھا، "پکّا؟" اور میرے باہر آتے ہی اسنے بنا کچھ کہے سنے گاڑی بڑھا دی.اسکی پستول میرے ہاتھ میں، اور شکریہ میری زبان پر رہ گئے.
دوسرے دن جب مجھے اسکی پستول کا خیال آیا ، تو مجھے اس خیال نے پریشان کر دیا کہ پتا نہیں وہ کوئی دہشتگرد تو نہیں؟ اگر لائسنسی گن ہوتی تو یوں میرے پاس چھوڑ جاتا؟ کہیں یہ میرے لئے مصیبت نہ بن جائے.میرے پاس تو اسکا نہ نام تھا نہ پتا. اور موبائیل نمبر بھی نہ تھا. لیکن شاید وہ لینے آ جائے ....
تین دن اسکا انتظار کرنے پر بھی جب وہ نہیں آیا تو میں نے پولیس سٹیشن جاکر ساری بات بتا دی اور پستول سونپ دی. پستول کو ہاتھ میں لیکر دیکھنے کے بعد انسپکٹر نے پستول واپس کرتے ہے کہا، "میڈم اسے اپنے پاس ہی رکھیں.یہ گن نہیں صرف ایک چینی کھلونا ہے."
یہ کسسا سن کر ہم لوگ ہسنے لگے؛ لیکن وہ سنجیدہ ہو گیئ.وہ واپس گاڑی میں جا بیٹھی
"چلو" اسنے ہولے سے کہا.
ہمنے دیکھا اسنے پرس میں ہاتھ ڈال کر ایک پستول نکالی جو mauzarکی ہو ب ہو نکل تھی.تھوڑی دیر دیکھنے کے بعد اسنے اسے واپس پرس میں ڈال لیا اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی.ہم سمجھ گئے وہ اپنے تصّورات ہم سے چھپانا چاہتی ہے.
ہماری گاڑی چل پڑی.رفتہ رفتہ وہ جگہ پیچھے چھٹنے لگی؛اور ہماری گاڑی اپنی رفتار سے آگے بڑھنے لگی....